*نکیال کے موجودہ وزیر حکومت جاوید بڈھانوی صاحب اور سابقہ وزیر حکومت سردار فاروق سکندر صاحب سے نکیال کے مریض کے لیے علاج کے لیے کل صبح نو بجے تک اپنی تنخواہوں پنشن سے امداد دینے کا ایکشن کمیٹی کا مطالبہ* ۔
تفصیلات کے مطابق
*نکیال کے کچھ رپورٹر، سوشل میڈیا صارفین ایک نوجوان مریض کہ اندرلہ ناڑ کا رہائشی ہے ۔اس کی اپیل کی پوسٹ وائرل کر رہے ہیں۔ جو اس وقت راولپنڈی، پاکستان میں تشویشناک حالت میں زیر علاج ہے۔*
*لیکن سوال یہ ہے کہ نکیال کے موجودہ تین وزارتوں کے مالک بڈھانوی صاحب اور سابقہ وزراء صاحبان سے کوئی یہ سوال کیوں نہیں کرتا کہ آپ اس کا علاج کیوں نہیں کراتے؟
*
نکیال میں جدید ہسپتال کیوں نہیں دیا گیا؟ آپ لوگ، مثلاً وزیر صاحب اور سابقہ وزراء، اپنی پنشنوں اور تنخواہوں سے اس مریض کا علاج کیوں نہیں کراتے؟
خود تو یہ حکمران بیرونِ ملک اور انتہائی مہنگے ہسپتالوں میں علاج کراتے ہیں،
مگر عوام ۔۔۔۔خاص طور پر غریب مزدور ۔۔۔۔کے لیے یہاں نکیال میں بنیادی صحت کی سہولت تک موجود نہیں۔
نہ ڈاکٹر، نہ اسٹاف، نہ دوا۔ بس ایک ہی نسخہ۔۔۔راولپنڈی ریفر کریں!
اور پھر وہی پرانی کہانی ۔۔۔۔۔
۔۔
سب مل کر چندے کی اپیل شروع کر دیتے ہیں۔ ۔۔۔
فوٹو لگا لگا کر پوری دنیا میں وائرل کرتے ہیں، تاکہ کسی کے دل میں ترس جاگے اور کوئی پیسے بھیج دے۔
یہ حکمران تو کرپٹ ہیں ہی، لیکن انہوں نے عوام کو بھی بھکاری ذہنیت میں مبتلا کر دیا ہے۔
میرے بھائیو، دوستو، ساتھیو ۔۔۔۔۔
میں آپ کی نیت پر شک نہیں کرتا، مگر ہمیں سوچنا ہوگا کہ یہ کام جو ہم دانستہ یا نادانستہ طور پر کر رہے ہیں، یہ دراصل حکمران طبقے کی ذمہ داری ہے۔ ہم یہ کام کر کے ان حکمرانوں کی ناکامیوں ، کرپشن پر پردہ ڈال رہے ہیں ۔۔
یہ ان کا فرض ہے، ان سے سوال کیا جانا چاہیے، ان کا محاسبہ ہونا چاہیے۔
انہیں جواب دینا ہوگا کہ نکیال کے غریب بچوں کے لیے آپ نے کیا کیا ہے؟ کیا ان کے لیے صرف چندے کی اپیلیں چھوڑ دی ہیں؟
آپ نے اپنے بچوں کو ڈاکٹر، میجر، پروفیسر بنا دیا، کیڈٹ کالجوں میں پڑھا دیا۔۔۔
۔۔۔
مگر غریب کے بچوں کے لیے کیا چھوڑا؟
کیا دیا؟
اپنے
لیے
پرائیویٹ اسپتال کھول لیے، مگر عوام کو صحت کی سہولت تک میسر نہیں۔۔۔
۔۔
صحت کارڈ کے لیے قربانیاں دینے والے، شہادتیں دینے والے، وہ عوام اور وہی ایکشن کمیٹیاں تھیں ۔۔۔۔
جن کے کندھوں پر آپ آج تخت نشین ہیں۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال، موجودہ وزیر جاوید بڈھانوی صاحب اور سابقہ وزیر فاروق سکندر صاحب سے پرزور مطالبہ کرتی ہے کہ آپ اس علاقے کے صحت کے ذمہ دار ہیں۔کیوں کہ آپ حکمران طبقات ہیں ۔۔
۔۔
یہ
آپ کا فرض تھا، ہے، اور رہے گا کہ عوام کو بنیادی سہولت فراہم کریں۔
لہٰذا فوری طور پر اس مریض کے علاج کے جتنے اخراجات بنتے ہیں، وہ ادا کریں، اور عوامِ نکیال کو رپورٹ کریں۔
آپ۔۔
نکیال کے حکمران ہیں، اور عوام آج بھی اپنے مریضوں کی تصویریں لگا کر چندہ مانگ رہے ہیں۔
اب ہم مریضوں کی نہیں، بلکہ آپ دونوں حکمرانوں کی تصاویر لگائیں گے ۔۔۔
تاکہ ان کے علاج کے لیے چندہ مانگا جا سکے!
براہ مہربانی ۔۔۔
صبح تک اس مریض کے علاج کے اخراجات ادا کیے جائیں، ورنہ مزید سخت سوالات اٹھائے جائیں گے، اور سوشل میڈیا مہم شروع کی جائے گی۔
اب بہت ہو گیا ہے!
ہم اپنے غریبوں، محنت کشوں، اور ان کی بیماریوں کی تصویریں لگا لگا کر ان کی عزتِ نفس کا جنازہ نہیں نکلنے دیں گے۔
کیا آپ کے خاندانوں میں سے کبھی کسی کی تصویر چندہ برائے علاج۔۔۔
کے نام پر وائرل ہوئی؟
کبھی نہیں!
تو پھر ایک غریب کے ساتھ یہ مذاق کیوں؟
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کا مطالبہ ہے
کل صبح نو بجے تک رقم پہنچا دی جائے، اور عوام کو اس کی اطلاع دی جائے۔
اب نکیال کے عوام خاموش نہیں رہیں گے۔
اب سوال اٹھیں گے، حساب مانگا جائے گا،
اور ضمیر جھنجھوڑنے والی آواز ہر گھر سے بلند ہوگی۔اپ یا عوام کو اپنے جیسا کریں سہولیات وسائل بارے یا عوام جیسے ہو جائیں ۔۔۔ ساتھ مریں گے ساتھ جیں گے۔۔ یہی قسمیں کھاتے ہیں تو اب نبھائیں بھی۔۔
شکریہ
شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال، کوٹلی
آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل ثابت ہو گی ؟؟؟
آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل بنے گی ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی۔ سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال پاکستانی زیرانتظام جموں و کشمیر ایک بار پھر انتخابات کے معرکہ میں جھونک دیا گیا ہے۔ انتخابات؟ نہیں، یہ انتخابی مشق ایک نوآبادیاتی کھیل ہے، جس میں تاش کے پتوں کی طرح سیاسی مہروں کو ترتیب دیا جاتا ہے، عوامی رائے کی بساط پر نہیں، بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی منصوبہ بندی پر۔ یہاں جمہوریت ایک اسٹیج ڈرامہ ہے، جس کا اسکرپٹ پہلے سے طے شدہ ہے۔ کردار بدلتے ہیں، مگر اسٹیج اور ہدایتکار وہی رہتے ہیں۔ یہ خطہ، جو "آزاد" کہلاتا ہے، معاہدہ کراچی اور ایکٹ 1974 کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں آزادی پسندوں کے لیے الیکشن لڑنا جرم ہے، کیونکہ یہ خطہ صرف ان کے لیے ہے جو پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جو سوال کرے، جو مزاحمت کرے، اس کے لیے الیکشن میں داخلہ بند ہے، اس کی آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے۔ یہاں وفاداری قابلیت نہیں، بلکہ غلامی، سہولت کاری، مو...
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں