نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

جواب الجواب ۔ سردار فاروق سکندر صاحب

جواب لاجواب :- جناب فاروق سکندر صاحب آپ نے ہمارے مطالبہ پر اپنی سابقہ بحثیت ایم ایل اے/ وزیر ، ملنے والی پنشن سے مریض کو علاج معالجے کے لیے روپے نہیں دئیے ہیں ۔ لیکن کم از کم جواب تو دیا ہے، آپ نے عوامی جزبات قدر کا احساس کرتے ہوئے جواب دیا اس پر بہت خوشی ہوئی کہ جناب نے وضاحت دی، موجودہ وزیر حکومت تین وزراتوں والوں نے نہ مریض کو امداد دی نہ جواب دیا ۔۔ معلوم نہیں کس چیز کا گھمنڈ ہے۔ ۔ آپ کی چند باتوں سے مکمل اتفاق ہے جو ہمارے لیے ، عوام کے لیے دعوت فکر ہے ۔ ہمیں عوام کو سوچنا ہو گا ۔ لیکن چند باتوں سے سخت اختلاف ہے اور باقی پرسنل الزام کردہ باتوں سے انکاری ہے جو کہ حقائق کے برعکس ہیں۔ جناب والا! آپ نکیال سے الیکشن لڑے ، وزیر بنے، ممبر کشمیر کونسل رہے ، آپ کو عوام نے دو بار موقع دیا تھا عوام کے مسائل حل کرنے کا یا سردار سکندر حیات خان صاحب کی لیسگیسی کو آگے بڑھانے کا ، لیکن اس میں آپ ناکام ہوئے اور آپ نے حلقہ سے سیاست کنارہ کشی اختیار کر لی ، حالانکہ عوام سے منتخب ہونے والے کبھی حلقہ نہیں چھوڑتے ہیں ، میدان میں رہتے ہیں۔ لڑتے ہیں جیتے ہیں یا ہارتے ہیں، کم از کم میدان کے شہسوار ضرور ہوتے ہیں ۔ آپ کے پاس اختیار تھا کہ آپ قانون سازی کرے ، بل منظور کراتے، صحت کے مسائل کو حل کرتے ، اگر آپ صحت کے مسائل حل کراتے تو آج عوام کی طرف سے صحت کے مسائل پر سوالات نہ اٹھتے ۔ باقی راقم کو جو برادری کا طعنہ دیا وہ سوچنا چاہیے ، راقم نے اپنے نام کے ساتھ اپنی برادری کا لفظ نہیں لکھا ہے ، نہ چودھری نہ گجر ۔۔۔۔،نہ برادری ازم کو کبھی پروموٹ کیا ہے ۔ ہم نے اس ازم کو لعنت گناہ ، جرم ، کمینگی ، جہالت سمجھا ہے اور کہتے ہیں جو برادری ازم کرتے ہیں وہ شیطان کے ایجنٹ ہیں۔ نکیال میں سب سے بڑی برائی لعنت یہی ازم ہیں۔ 2021 کے انتخابات میں ، راقم نے آپ کے چچا جان نعیم خان صاحب اور آپ کے پیٹی بھائی بڈھانوی صاحب کے مقابلہ میں اپنا انقلابی ، عوامی منشور دے کر الیکشن لڑا تھا۔ نکیال کے گجروں اور آپ کے قبیلے کے لوگوں نے ہی ہمارے پولنگ ایجنٹوں پر حملے کیے ، دھاندلی کی، اس وقت ہمیں کسی برادری قبیلہ نے ووٹ نہیں دئیے تھے ۔ ہمیں نکیال کے محنت کشوں نے ووٹ دیے تھے ، جو ریکارڈ میں 33 تھے ، لیکن ہم نے ان کا آج تک تحفظ کیا ہے۔ آج تک ایکشن کمیٹی فورم سے دیگر فورم سے بھرپور اپوزیشن کی ہے۔ کبھی بھی آپ کی پارٹی قبیلہ یا گجروں ، پیپلز پارٹی یا سہولت کاروں ، غاصبوں سے سمجھوتا نہیں کیا ہے ۔ نہ ہم نے میدان چھوڑا ہے ، نہ ہماری زبان گنگ ہوئی ہے ۔ ہم نے پسند ناپسند کی ترجیحات سے بالاتر ہو کر ناقابل مصالحت جدوجہد کی ہے۔ ہم عوام کو حکمرانوں کے مقابلے میں کھڑا کر کے جدوجہد کرنے کے حامی ہیں اگر راقم برادری ازم کرتا ہوتا ہے اس وقت آپ کی طرح اپنے خاندان کی پارٹی میں ہوتا ،روائیتی نعرے بازی کر رہا ہوتا، تعصب نفرت کا ترجمان ہوتا ۔ لیکن ہم نے نکیال میں ایک قبیلہ برادری مظلوم محکوم پسے ہوئے محنت کشوں غریبوں کا انتخاب کیا ہے اور اسی برادری قبیلہ سے ہیں اور ہمیں اسی پر فخر ہے ۔ ۔باقی اگر نکیال کی گجر برادری کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہ سکندر حیات صاحب محروم کے لیے ساتھ رہے ہیں ۔ 2011 میں اکثر نے ساتھ چھوڑا ، نکیال میں پچاس سال ، نصف صدی حکمرانی کے جناب محترم کے خاندان کے بنتے ہیں تو پھر کیسے مجھ جیسے غریبوں مظلوم ، محنت کشوں کے قبیلے برادری سے تعلق رکھنے والوں کو ازم کا طعنہ دے دیا ہے۔ راقم نے تو آج تک کسی کو ووٹ نہیں دیا ، ماسوائے 2021 میں خود جب تنظیم اتحاد ترقی پسندوں قوم پرستوں کے فورم سے آیا تو دیا۔ بلدیاتی انتخابات دو بار ہوئے۔ ہمارے پولنگ سٹیشن پر ثابت کریں میں نے ووٹ دیا ہو ، تو آج ہی پڑاوہ چوک میں معافی مانگو گا۔ 2012 کے بعد کوئی ایک فوٹو ، وڈیو نکال کر دیں پیپلز پارٹی یا ن لیگ کسی روائتی سیاسی سہولت کاروں کے جلسہ پروگرام کی تو پھر بھی سرینڈر کر دوں گا۔ باقی صحت کا بجٹ کیوں نہیں رکھا جاتا حالانکہ صحت کی کوئی قیمت نہیں ہے کوئی نعم البدل نہیں ہے ۔ صحت ہے تو سب کچھ ہے۔ اب نکیال میں سردار سکندر حیات خان صاحب نے بڑی سڑکیں، بڑے ادارے ، محکمے دینے کی اپنی زمہ داری پوری کی ہے۔ لیکن ہم آپ سے بڈھانوی صاحب سے یا دیگر سے سوالات کرتے ہیں کہ آپ لوگوں نے بحثیت حکمران کون سا نکیال کے لیے میگا پروجیکٹس لائے ہیں۔ سردار سکندر حیات خان صاحب کے لائے گے محکمہ اداروں ، پروجیکٹس کو بھی آپ لوگ جو بھی ہیں وہ برقرار نہیں رکھ سکے، ان کو تباہ و برباد کر دیا ہے ۔ ہم یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا نکیال میں اب بڑی سڑکوں کی مرمت کی ضرورت نہیں ہے کون دے گا کون بنائے گا ، ہر طرف صرف سڑک سڑک ہی کیوں ہے ہسپتال تعلیم روزگار دیگر آیشو پر کیوں نہیں کام ہو رہا ہے ۔ کیا نکیال کی عوام کو صرف سڑکیں ہی چاہیے ۔ کون دے گا ٹاؤن اینڈ ویلیج پالیسی یہ تو حکمران طبقات کا کام ہے۔ سڑکوں کی جانب عوام کو اسی لیے لایا گیا ہے رجحان بنایا جائے اس میں فنڈز زیادہ ہے کرپشن کی جائے اور کچھ نہیں ہے ۔ سب کو حصہ ملتا ہے ۔ اگر بڈھانوی صاحب حکومت میں ہیں تو یہاں اپوزیشن کدھر ہے ساڑھے چار سال سے ۔ ایک دوسرے سے ووٹ لیتے ہیں ، ایکشن کمیٹی کے خلاف ہو گے۔ پی ڈیم ایم ہے۔ مفادات ایک ہیں۔ یہاں حکومت کو نکیل ڈالنا اپوزیشن کام ہے۔ نکیال میں اپوزیشن ہم ایکشن کمیٹی والے ہی کر رہے ہیں ۔ باقی عوام کو صحت کی سہولیات ضروریات چاہیے ۔ وسائل ہی وسائل ہیں۔ ان کو استعمال میں لایا جانا ہی ضروری ہوتا ہے ۔ اب حکمران طبقات کے لیے ان کے علاج معالجے تںخواہ ، عیاشیوں کے لیے کاروبار کے لیے وسائل اگر آ سکتے ہیں بروے کار لائے جا سکتے ہیں تو پھر غریب محنت کشوں کے لیے کیوں نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ باقی نکیال کی عوام فرائض ادا کرتی ہی آئی ہے۔ ووٹ دے رہی ہے۔ ٹیکس دے رہی ہے اور کیا کرے ۔۔ حقوقِ کیوں نہیں دئیے جا رہے ہیں ۔ ہم محنت کشوں کے دکھ عوام کے غم کو چنتے ہیں وہی ہمارا منشور ہے۔ باقی ہم آپ کے بے حد مشکور ہیں کہ آپ نے ہمیں ہدایت کی ہے کہ کام جاری رکھیں۔ انشاء اللہ یہی سرخ سلام ، آنے والے غیر طبقاتی ، انصاف مساوات خوشحالی پر مبنی ایک نئے نکیال کی للکار ہے اور حکمران طبقات کے خلاف ناقابل مصالحت جدوجہد کا اعلان جنگ ہے۔ ۔اگر عوام کی جواب الجواب میں کسی بات سے دل آزاری ہوئی تو معزرت خواہ ہیں، لیکن حکمرانوں پر سوال اٹھانا واجب ہے لازم ہے۔ سرخ سلام۔ شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ ہائی کورٹ ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل ثابت ہو گی ؟؟؟

آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل بنے گی ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی۔ سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال پاکستانی زیرانتظام جموں و کشمیر ایک بار پھر انتخابات کے معرکہ میں جھونک دیا گیا ہے۔ انتخابات؟ نہیں، یہ انتخابی مشق ایک نوآبادیاتی کھیل ہے، جس میں تاش کے پتوں کی طرح سیاسی مہروں کو ترتیب دیا جاتا ہے، عوامی رائے کی بساط پر نہیں، بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی منصوبہ بندی پر۔ یہاں جمہوریت ایک اسٹیج ڈرامہ ہے، جس کا اسکرپٹ پہلے سے طے شدہ ہے۔ کردار بدلتے ہیں، مگر اسٹیج اور ہدایتکار وہی رہتے ہیں۔ یہ خطہ، جو "آزاد" کہلاتا ہے، معاہدہ کراچی اور ایکٹ 1974 کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں آزادی پسندوں کے لیے الیکشن لڑنا جرم ہے، کیونکہ یہ خطہ صرف ان کے لیے ہے جو پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جو سوال کرے، جو مزاحمت کرے، اس کے لیے الیکشن میں داخلہ بند ہے، اس کی آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے۔ یہاں وفاداری قابلیت نہیں، بلکہ غلامی، سہولت کاری، مو...

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی،سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال نکیال میں گزشتہ روز پیش آنے والا دردناک حادثہ، جس میں ایک پورا خاندان حادثے کا شکار ہوا، دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ معصوم بچی کی موت، ماں کا کوما میں چلے جانا، اور باپ کا اپاہج ہو جانا— یہ سب مل کر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم سامنے آئی: "اس بچی کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اہل تشیع ہے۔" یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ کیا ہم نے مذہب، مسلک اور فرقہ بندی کو انسانیت سے بھی مقدم کر دیا ہے؟ کیا معصومیت اب نظریات کی قربان گاہ پر چڑھائی جائے گی؟ ایک ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کے جنازے کو بھی مسلک کی بنیاد پر متنازعہ بنایا جائے گا؟ یہی نکیال تھا جہاں رواداری، بھائی چارے، اور انسان دوستی کی مثالیں قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن آج نکیال کے افق پر فرقہ واریت کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ک...