نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

نکیال کریلہ مجہان انٹر کالج اور حکمران طبقات ۔

نکیال کریکہ مجہان کالج اار حکمران طبقات کریلہ مجہان سرکاری انٹر کالج میں کمپیوٹر مضمون کا پروفیسر نہیں ، پرائیویٹ بندہ تنخواہ پر پڑھاتا ہے ۔ بچے ماہانہ چندہ دیتے ہیں ۔ کالج میں پرنسپل کی پوسٹ خالی ہے۔ انچارج پر کام چل رہا ہے ۔ نکیال اس وقت چندہ اور انچارج پر چل رہا ہے ۔ کمپیوٹر کے 11 طلبہ میں سے 10 فیل ہو گے ہیں ۔ گزشتہ روز ان کا کمپیوٹر کا پیپر تھا ۔ ملاقات کی پوچھا پیپر کیسا ہوا تو کہنے لگے جیسے پہلے ہوا تھا ۔ کیسا ہو گا پروفیسر ہی نہیں ہے ۔ کوئی پڑھانے والا نہیں تو پاس کیسے ہو گا ۔ خون کے آنسوں نکلنا شروع ہو گے۔ پاؤں سے زمین نکلنا شروع ہو گی۔ طلبہ کے وہ الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں ۔۔ سر پھٹ رہا ہے ۔۔ اتنا ظلم ۔۔۔ ان طالبہ کے مستقبل کا زمہ دار کون ہے ۔۔ ؟؟؟ اس کا زمہ دار کون ہے ۔ نکیال کے نالائق حکمران طبقات ہیں ۔ چاہیے وہ موجودہ ہویا سابقہ ہو۔ نہیں غریبوں کے بچوں کا کوئی احساس ہی نہیں ہے ۔ سردار سکندر حیات خان صاحب کے بعد واقعی نکیال لاوارث اور یتیم ہو گیا ہے ۔ سردار سکندر حیات خان صاحب نے اپنے بچوں کو سرکاری کالج میں پڑھایا تھا۔ لیکن اب موجودہ سابقہ حکمران طبقات دونوں سے سوالات ہیں کہ آپ کس مرض کی دوا ہیں آپ نے سکندر حیات خان صاحب کے لائے ہوئے ادوار کے اداروں کو سنبھالا بھی نہ دیا۔ نیاء تو کچھ لایا نہیں جو تھا وہ بھی ختم کروا دیا ۔ آپ غریبوں کی تعلیم کے دشمن ہو ۔ آپ کے اپنے بچے بیرون ممالک اور پاکستان میں پڑھتے ہیں ۔غریبوں کے بچے سرکاری سکولوں کالجز میں پڑھتے ہیں ۔ جناب وائس چیئرمین صاحب عمیر نعیم خان صاحب کو سنا تھا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ الحمداللہ ہمارے خاندان میں درجن ڈاکٹر ہیں ۔ ماشاءاللہ آپ کو مبارک ہو۔ مزید ترقی ملے ۔۔ لیکن جناب والا ۔۔۔ جناب آپ کے پڑوس پر کالج ہے جو آپ کے والد محترم کی کوشش سے بنا انہوں نے اپنی زمہ داری پوری کی ۔ ۔ جناب فاروق سکندر صاحب سے گلہ شکوہ کرتے ہی نہیں ہیں کیوں کہ ان کے نزدیک تعلیمی معیار پبلک پارک پر قبضہ کیے ہوئے فوجی فاؤنڈیشن سکول کا ہے ۔ وہ تو کہہ چکے ہیں کہ نکیال کے ڈگری کالج کو گاڑیوں کا اڈہ بنائیں ۔۔ اب آپ وائس چیئرمین ہیں ۔پوعے ضلع کوٹلی کے ۔۔ وزیر امور جموں کشمیر ، وائسرے کشمیر سے ملتے جلتے ہیں ۔۔ آئند الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہوا ہے ۔ یہاں غریبوں کے بچوں کو پڑھانے کے لیے کمپیوٹر کا بیالوجی کا انگلش کا ۔ تاریخ کا اسلامیات کا ماسٹر ہی نہیں ہے ۔۔ پرنسپل ہی نہیں ہے ۔ آپ کے بچے۔ خاندان والے ڈاکٹر بن رہے ہیں میجر بن رہے ہیں ۔ غریب مظلوم عوام کے بچوں سے کمپیوٹر پاس نہیں ہو رہا ہے ۔ ایسا کیوں ہے ۔ آپ کے پاس جو گیڈر سنگھی ہے وہ تھوڑی پڑوس کے کالج والوں کو بھی دیں ۔ احسان عظیم ہو گا ۔ کیا یہ طبقاتی نظام تعلیم نہیں ہے ۔ کیا ایک نکیال میں دو الگ الگ نظام نہیں ہیں ۔ یہ کون بہتر کرے گا ۔ اس پر کیوں نہیں بولے آپ ۔ 11 میں سے 10 بچے کمپیوٹر کے فیل ہو چکے ہیں ۔ قارئین کرام ۔ جبکہ جناب موجودہ وزیر بڈھانوی صاحب آپ کے بچے سلامت رہیں ۔ ترقی لائیں۔ خوش رہیں ۔۔لیکن وہ کہاں پڑھتے ہیں۔ پڑھے رہے ہیں۔ وہ تو شاید کیڈٹ کالج مری میں ہیں ۔۔ ۔ بڈھانوی صاحب کو کیا احساس ۔۔ ماسٹر نکیال میں ہوں یا نہ ہوں ۔۔ آدھی کچی، آدھی پکی ، آدھی گیڑے والی شڑک جو دے رہے ہیں یہی تو ان کا احسان عظیم ہے ۔ اور تو اور ان کا تو نکیال کا حلقہ ہے۔ ان کو بس ووٹ چاہیے ۔۔دو بار بن چکے ہیں ۔ ۔۔ تحصیل تو ان کی نکیال ہے نہیں ۔۔۔ غریبوں کا کیا احساس ہو گا ۔ ان کو کیا دلچسپی ہو گی کہ کالج میں اسٹاف ہے یا نہیں ہے۔ جناب پیارے بڈھانوی صاحب! آپ کا کام بنتا ہے کہ اسٹاف فراہم کریں ۔ یہ آپ تین وزارتیں لے کر کیسے خاموش ہیں ۔اپ حکمران ہیں ۔ آپ کی زمہ داری بنتی ہے ۔ ت۔ام محکمہ بے لگام ہیں ۔ کیسی وزات ہے آپ کی ۔ میرپور سے تین بندے کالج کریلہ مجہان میں بھارتی ہوئے نکیال کی پوسٹ ، آسامیوں پر دو دن پر بھرتی ہو کر اپنا تبادلہ کرا دیا انہوں نے چکسواری ڈڈیال میں ۔ جناب بڈھانوی صاحب آپ یہ بتائیں یہ سوچیں کیا ان پوسٹوں پر نکیال کے نوجوانوں کا عوام کا جو بے روزگار ہیں ان کا حق نہیں تھا ۔ کیا نکیال میں نوجوان ان پڑھ ہیں ۔ نکیال کے نوجوان ایک چپڑاسی کی پوسٹ کے لیے تڑپ رہے ہیں ۔۔ کیا نکیال کے نوجوانوں نے کمپیوٹر کا ۔ انگلش کا ، تاریخ کا ، بیالوجی کا مضمون نہیں پڑھا ان کی ڈگری حاصل نہیں کی ہوئی ہے ۔ اور وہ ان روائیتی سیاسی جماعتوں کے روائیتی برسات کے ڈڈو جو کہہ رہے تھے کہ ایکشن کمیٹی کی وجہ سے طالب فیل ہوتے ہیں کیوں کہ یہ احتجاج کرتے ہیں ان ڈڈوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ ایکشن کمیٹی ہی ہے جو طالبہ طالبات کو غریب خاندانوں سے عام عوام سے ہی۔ مظلوم ہیں ان کے تعلیمی مسائل کی بات کرتی ہے ۔ آپ کے بڑے سہولت کاروں کے بچے تو پڑھتے ہی بیرون ملکوں اور پاکستان میں ۔ آج کریلہ مجہان انٹر کالج طلبہ ایکشن کمیٹی کا اسسٹنٹ کمشنر نکیال آفس کی جانب ان اسٹاف کی کمی اور تبادلوں پر احتجاجی مارچ ہے جو بلکل درست ہے ۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال بھرپور حمایت کا اعلان کرتی ہے ۔ اگر مطالبات پورے نہ کیے تو اب جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کال دی گی ۔ اپنے حقوق ان سے چھین لو ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ ہائی کورٹ ۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل ثابت ہو گی ؟؟؟

آزاد جموں کشمیر میں جمہوریت برائے فروخت – سلطانیٔ زر کا نیا موسم۔ کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی متبادل بنے گی ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی۔ سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال پاکستانی زیرانتظام جموں و کشمیر ایک بار پھر انتخابات کے معرکہ میں جھونک دیا گیا ہے۔ انتخابات؟ نہیں، یہ انتخابی مشق ایک نوآبادیاتی کھیل ہے، جس میں تاش کے پتوں کی طرح سیاسی مہروں کو ترتیب دیا جاتا ہے، عوامی رائے کی بساط پر نہیں، بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی منصوبہ بندی پر۔ یہاں جمہوریت ایک اسٹیج ڈرامہ ہے، جس کا اسکرپٹ پہلے سے طے شدہ ہے۔ کردار بدلتے ہیں، مگر اسٹیج اور ہدایتکار وہی رہتے ہیں۔ یہ خطہ، جو "آزاد" کہلاتا ہے، معاہدہ کراچی اور ایکٹ 1974 کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں آزادی پسندوں کے لیے الیکشن لڑنا جرم ہے، کیونکہ یہ خطہ صرف ان کے لیے ہے جو پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جو سوال کرے، جو مزاحمت کرے، اس کے لیے الیکشن میں داخلہ بند ہے، اس کی آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے۔ یہاں وفاداری قابلیت نہیں، بلکہ غلامی، سہولت کاری، مو...

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان؟اظہار یکجہتی کا موقع ۔ سیز فائر لائن سے انٹری پوائنٹس کھلے جائیں ۔ اموات کی تعداد 16 ہو گی۔

ضلع راجوری میں بچوں کی اموات: ایک سوالیہ نشان ؟ اظہار یکجتی تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، نکیال۔ سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال ۔ ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ۔ snsher02@gmail.com آج جب سردی اپنے عروج پر ہے اور سیز فائر لائن کے اس طرف، ضلع راجوری اور ضلع پونچھ سے متصل تحصیل نکیال میں بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کے سامنے، یہاں سے چند کلو میٹر دور ضلع راجوری واقع ہے، لیکن اس خونی لائن کے پار جانے کی کوئی اجازت نہیں۔ یہاں سے میں بس یہ دیکھ سکتا ہوں، سن سکتا ہوں، مگر اس درد کو نہ چھو سکتا ہوں، نہ کسی کے گلے لگ کر اس کے غم کو کم کر سکتا ہوں۔ یہ کرب، یہ اذیت ایک زندہ نعش کی طرح دل پر بوجھ بن کر محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے سے، ضلع راجوری کے بدھل گاؤں میں ایک پراسرار بیماری سے ہونے والی بچوں کی اموات نے نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو بلکہ پورے علاقے کو بے چین کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ 45 دنوں میں 12 بچوں سمیت 16 افراد کی جانیں اس بیماری کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ لیکن سب سے پریشان کن بات یہ ہے ک...

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟

نکیال : شیعہ سنی فرقہ پرستی اور معصومیت پر ہونے والا حملہ، تشویشناک ؟؟؟ تحریر: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی، نکیال کوٹلی،سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن نکیال نکیال میں گزشتہ روز پیش آنے والا دردناک حادثہ، جس میں ایک پورا خاندان حادثے کا شکار ہوا، دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ معصوم بچی کی موت، ماں کا کوما میں چلے جانا، اور باپ کا اپاہج ہو جانا— یہ سب مل کر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک شرمناک مہم سامنے آئی: "اس بچی کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اہل تشیع ہے۔" یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کون سی انسانیت ہے؟ کیا ہم نے مذہب، مسلک اور فرقہ بندی کو انسانیت سے بھی مقدم کر دیا ہے؟ کیا معصومیت اب نظریات کی قربان گاہ پر چڑھائی جائے گی؟ ایک ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کے جنازے کو بھی مسلک کی بنیاد پر متنازعہ بنایا جائے گا؟ یہی نکیال تھا جہاں رواداری، بھائی چارے، اور انسان دوستی کی مثالیں قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن آج نکیال کے افق پر فرقہ واریت کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ک...