پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر کے ضلع بھمبر کی تحصیل سماہنی کو مختلف دیہاتوں سے ملانے والا لکڑی کا مرکزی پل گر گیا ،
آزاد جموں کشمیر حکمران طبقہ شرم کریں !!!
تحریر:- شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ ، ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کوٹلی
03418848984
پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر کے ضلع بھمبر کی تحصیل سماہنی کو مختلف دیہاتوں سے ملانے والا لکڑی کا مرکزی پل گر گیا ،
لکڑی کے پل کے رسے ٹوٹنے سے پل ہوا میں معلق ہو کر رہ گیا۔ ہل ٹوٹنے کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب سکول کے طلبہ خاص طور پر طالبات کی بڑی تعداد پل سے گزر رہے تھے ۔
پل کے گرنے سے 7 طالبات سمیت 10 افراد زخمی ہو گئے ،
زخمیوں کو فوری طور پر تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال سماہنی منتقل کیا گیا ۔
لکڑی کا یہ پل تحصیل ہیڈ کوارٹر کو سمرالہ گاؤں سے ملاتا ہے ۔
یار رہے کہ اس وقت آزاد جموں و کشمیر پر مسلط/ نعب کردہ صدر اور وزیر اعظم آزاد جموں و کشمیر کا تعلق بھی اسی میرپور ڈویژن سے ہے۔
1947 سے ریاست جموں و کشمیر کی جبری تقسیم کے بعد ، توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے یہ موجودہ خطہ جو کو آزاد جموں و کشمیر کیاجاتا ہے جو پاکستانی زیر انتظام علاقہ ہے اس کو بیو کیمپ کا نام دیا گیا ۔
یوں تو اس علاقہ کو ایک نام نہاد براہ نام قانون ساز اسمبلی، پارلیمانی نظام ، صدر وزیر اعظم ، ریاستی جھنڈا ، سپریم کورٹ اور عبوری آئین نما ایکٹ چوہتر بھی دیا گیا ،
لیکن عملا اس علاقہ یا خطہ پر پاکستان کے نمائندے چیف سیکرٹری ، آئی جی پولیس ، جی او سی مری ، وزارت امور کشمیر ، کشمیر کونسل جس کا چیرمین پاکستانی وزیر اعظم ہوتا ہے سمیت دیگر ایک درجن کے قریب لینٹ آفسیران مکمل طور پر اپنے پورے کامل لامحدود اختیارات سے کنٹرول و رن کرتے ہیں ۔ جو آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی یا کسی شہری کو نہ جواب دہ ہیں نہ ان کے لئے کسی بھی محاسبہ کے پابند ہیں۔
1947 سے اب تک 2024 کے اختتام تک اتنے لمبے عرصہ نصف صدی سے زائد عرصہ میں چاہیے تو تھا کہ یہ پوری ریاست جموں کشمیر کے 85806 مربع میل خطہ میں سے صرف چار ہزار مربع میل پر مبنی علاقہ آزاد جموں و کشمیر سونے کی چڑیا بن سکتا تھا۔ انسانی لائف سٹائل ، معیار زندگی جدید ترقی یافتہ ممالک کی طرح بلند کیا جا سکتا تھا ۔
دودھ و شہد کی حقیقت میں نہریں بہائی جا سکتی تھیں۔ حتی کہ 2005 کے زلزلہ میں جو رقوم آئی تھی اس سے بھی اس علاقہ ، یا خطہ کو بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر ، پاکستان ، بھارت سمیت جنوبی ایشیا و دنیا کے لیے ماڈل بنایا جا سکتا تھا۔
جب کہ پورے آزاد جموں و کشمیر میں آپ شہریوں سمیت دیہی علاقوں خاص کر سیز فائر لائن کے تیرہ حلقوں کی وزٹ کریں، زمینی حقائق جاننے کی کوشش کریں تو اس خطہ میں بدترین قسم کا استحصال ، غلامی ، جبر ، پسماندگی ، جہالت موجود ہے ۔ عوام ، محنت کش طبقہ ، عورتیں ، بچے نوجوان اب بھی 70 فیصد پتھر کے زمانے کی زندگی گزار رہے ہیں ۔
جب کہ مزکورہ بالا ان 75/74 سالوں میں اس خطہ پر مسلط کردہ بے اختیار و بے وقار حکمرانوں نے ہمیشہ تعمیر و ترقی ، ماڈل آزاد جموں و کشمیر ، سرسبز و ہنر مند ، ترقی یافتہ، رول ماڈل آزاد جموں کشمیر کا دعویٰ کیا ہے ۔ اتنے بڑے بڑے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں کہ بیرونی دنیا کو ہمشیہ بیوقوف بنایا گیا ہے ۔
عوام کے ٹیکسوں سے جو بطور فرض شناسی دیا جاتا ہے اس کو احسان سمجھا جاتا ہے ، پوری عمر کریڈٹ لیا جاتا ہے ۔ نسلوں تک ووٹ لیے جاتے ہیں ۔
جب کہ حقیقت یہی ہے کہ پاکستانی ضلع راولپنڈی کے نالہ لئی کا بجٹ تقریبا 42 ارب ہے جو پورے آزاد جموں و کشمیر کے بجٹ کے برابر بنتا ہے ۔ جب کہ کچہری چوک، و سروس روڈ وغیرہ کا بجٹ بیس ارب سے زائد ہوتا ہے ۔
پورے آزاد جموں و کشمیر کی ابادی اس ضلع راولپنڈی اتنی ہو گی۔ اس کرپٹ نالائق طبقہ سے یہ چار ہزار کا اڑھائی اضلاع پر مبنی علاقہ تک نہیں سنبھالا گیا۔
جبکہ آزاد جموں و کشمیر کی پوری آبادی میں سے تقریبا بیس لاکھ بیرون ممالک موجود ہیں۔ پورے آزاد جموں و کشمیر میں آپ سروے کر لیں کہ راولپنڈی ، اسلام آباد ، پنجاب ، پاکستان کے کسی ایک شہر جیسا ایک بھی یہاں معیاری سکول، ہسپتال ، سڑک، ہوٹل ، مارکیٹ ، معاشی منڈی ، شاپنگ مال، ائیر پورٹ ، سروس لائن، ریسکیو نظام ، ورکشاپس ، ہنر و فن کا ادارہ نہیں ہے ۔
یہاں کی عوام علاج معالجہ، تعلیم ، روزگار ، ورکشاپ گاڑیوں کی مرمت ، شاپنگ کے لیے ، بیروں ممالک میں جانے کے لیے پنجاب پاکستان ہی جانے پر مجبور ہیں۔
اب تو تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ اس خطہ کو ان حکمرانوں نے اتنا بنجر بنا دیا ہے کہ ایک مرغی کا انڈہ ، ایک ٹماٹر، سبزی فروٹ، دودھ، ڈرائی فروٹ ، کھلونا سمیت ہر اشیاء پنجاب پاکستان سے یہاں آتی ہیں۔ اس خطہ سے ایک انڈا تک پیدا کرنے کے یہ قابل نہیں ہیں۔ یہاں کی عوام میں کوئی ایک ہنر ڈھنگ یا پوری تربیت و معیار سے سیکھانے کے قابل نہیں ہیں ۔
حقیقت یہی ہے کہ یہاں چند خاندانوں ، علاقوں ، برادریوں کی اجارہ داری قائم کر کے ان کے بالا دست طبقہ کو آزاد جموں کشمیر کا اقتدار صرف خاموش رہنے ، چاپلوسی کرنے ، کرپشن کرنے اور نوازنے کے لیے دیا جاتا ہے ۔
اس خطہ کے حکمرانوں کے جس طرح غازی ، مجاہد ، رئیس احرار، سالار جمہوریت ، شیر کشمیر ، فرزند اول، قبلہ ، مرد جیسے جعلی و بے بنیاد خود ساختہ منت گھڑت القابات دییے دے ہیں ان جعلی ناموں کی طرح ان کے آزاد جموں و کشمیر کی عوام کے لیے عملاً تعمیر و ترقی ، عوامی خدمات و جدوجہد کی کارکردگی بھی انتہائی مایوس کن ہے۔
آزاد جموں و کے حکمران طبقہ نے عوام کی فلاح و بہبود بہتری کے بجائے اپنی ساتھ نسلوں کے لیے بنک بیلنس ، جائیداد پلاٹ، مال و دولت کے انبار لگائے ہیں۔
جب کہ موجودہ سرکار یعنی انوار الحق سرکار اپنی کارکردگی کا موازنہ بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر اور مہاراجہ کے دور سے کرتا ہے کہ ہماری کارکردگی سابقہ ادوار سے اعلی ہے۔
حالانکہ بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر میں اس وقت لوکل و انٹرنیشنل اعلی معیاری کے تین ائیر پورٹ ہیں ،ایک زبردست قسم کی قومی ریلوے لائن ہے۔ اب درجنوں ریلوئے ، پل کے اربوں روپے کے منصوبے زیر کار ہیں۔
آج سے بیس سال قبل درجنوں میڈیکل کالجز ، یونیورسٹیوں کا جال بچھا تھا ، زراعت کا زبردست نظام ہے۔ سری نگر ایشاء کی فروٹ سبزی کی دوسری منڈی ہے۔ اشیائے خوردونوش مقامی ہیں تازہ اور صحت مند ہیں ۔ چودہ آئی ویز ہیں ۔
جب آزاد جموں و کشمیر میں ایک بھی ائیر پورٹ ، ریلوے لائن ، قابل ذکر پنجاب کے مقابلے میں ایک بھی یونیورسٹی میڈکل کالج نہیں بس نارمل سے گزارے کے قابل تین میڈکل کالج ، تین چار یونیورسٹی ہیں ۔
اور موجودہ انوار الحق سرکار کی کارکردگی ، ان کے آبائی علاقوں کی صورتحال اس تحریر کے شروع میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ ایک بڑی مشہور تحصیل سماہنی میں آج بھی لکڑی کا بنا پرانا پل تھا۔ جس کی رسیاں بوسیدہ ہو چکی تھیں۔ جو لوڈ برداشت نہ کرنے کی وجہ سے ٹوٹ گیا۔
اور اس پل سے طالبات گزر رہی تھیں۔ جو زخمی ہوئیں اور ہوا میں لٹکی رہیں۔
بڑی مشکل سے ریسکیو کیا۔ ریسکیو کرنے کا کوئی نظام ہی نہیں ہے ۔ جیسا کہ نکیال میں ایک ماہ میں تین حادثے ہوئے ریسکیو نظام نہ ہونے سے انسانی زندگی ختم ہو گئیں ۔
آج بھی بچے عورتیں نوجوانوں ، عوام ندی نالوں سے گزر کر جاتے ہیں ۔
ایمبولینس نہ ہونے کی وجہ سے عورتوں مریضوں کو چارپائی پر اٹھا کر لے جاتے ہیں ، عورتیں حاملہ ہونے کے باوجود بھی سروں پر منوں بھاری پانی کے مٹکے یعنی گھڑے کئی کلو میٹر دور سے لاتی ہیں۔ لکڑی نہیں گیس نہیں ، بجلی اب سستی ہوئی ہے جس کی وولٹیج اتنی کم ہے کہ استری آدھا گھنٹہ بعد گرم ہوتی ہے ۔ موٹر وغیرہ نہی چلتی ہیں ۔ علاج معالجہ کے لیے ، معیاری ہسپتال نہیں ، سفر کے لیے سڑکیں نہیں ،جتنے شہری ٹریفک حادثے میں سڑکوں کی وہ سے مرتے ہیں اتنے طبعی موت سے نہیں مرتے ہیں ۔
روزگار نام کی چیز نہیں ایک بھی فیکٹری نہیں ہے ۔ بچے بس جواں ہوتے نہیں پاسپورٹ کی لائن میں لگ کر عرب و عجم کے صحراؤں میں محنت فروخت کرنے کے لیے معاشی ہجرت پر مجبور ہیں ۔اشیاء خوردونوش ، سمیت ادویات ہر چیز جعلی ، بوسیدہ مضر صحت ہے جس سے ہر دوسرا شخص شوگر، بلڈ پریشر ، کینسر ، پاگل پن مہلک امراض کا شکار ہے ۔
قارئین! دکھ و تکلیف کی یہ بات ہے کہ غلامی استحصال کا بدترین شکار یہ خطہ بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر میں معیار زندگی سہولیات ضروریات بارے تیس فیصد بھی مقابلہ یا موازنہ نہیں کر سکتا ہے بلکہ ان کے ساتھ مقابلہ موازنہ کرنا بھی نالائقی ، تعصب ہے۔
اس خطہ کے حکمرانوں نے اس خطہ کو ایک آزاد متحدہ باوقار جموں کشمیر سے آزادی انقلاب تبدیلی کے نام پر توڑ کر آزادی کا بیس کیمپ بنایا اور پھر جعلی القاب سے نوازتے رہے۔
الحق ، شہ رگ، رائے شماری، ،جگر دل و معدہ ،کلمہ و جغرافیہ کے رشتے ناطوں سے
نعروں سے ڈنگ ٹپکاو پالیسی اپنائے رہے ، نہ اس خطہ کو بااختیار بنایا، نہ آئیں ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لا سکے نہ چیف سیکرٹری ، آئی جی پولیس ، کشمیر کونسل سے جان چھڑا سکے،
نہ جموں کشمیر کے منقسم خطوں کے لیے کچھ کر سکے ، نہ اس خطہ کو وقار تشخص شناخت دے سکے اور نہ ہی یہاں کی عوام کو عزت کی آرام و سکون کی روٹی مکان کپڑا تعلیم صحت روزگار دے سکے۔
آج دسمبر 2024 پر ان کی طالبات لکڑی اور رسیوں کے پل ٹوٹنے سے زخم کھانے پر مجبور ہیں ۔
جبکہ عوام نے تمبر کے ڈنڈوں ، شٹر ڈاؤن پہیہ جام ہڑتالوں سے عوامی جڑت جدوجہد سے زور بازو پر سستی بجلی آٹا لیا ہے ۔
اس لیے یہاں کے حکمرانوں کو باقی کاموں، بلند بانگ دعووں کے ساتھ ساتھ تھوڑی سے ، کم از کم ایک چھٹانک شرم محسوس کی سخت ضرورت ہے۔
ختم شد ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں